کرناٹک کی سیاست ان دنوں گرمائی ہوئی ہے، جہاں وزیر اعلیٰ سدارامیا اور نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیواکمار کے درمیان اقتدار کی کرسی کو لے کر کھینچ تان تیز ہو گئی ہے۔ اقتدار بانٹنے کے فارمولے کو لے کر دونوں رہنماؤں کے درمیان اختلافات اب عوامی طور پر نظر آنے لگے ہیں۔
بنگلور: کرناٹک کی حکومت میں چل رہی اندرونی رسہ کشی ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیواکمار کے ایک عوامی تبصرے نے ایک بار پھر کانگریس کی داخلی سیاست کو بحث کے مرکز میں لا کھڑا کیا ہے۔ بنگلور ایڈوکیٹس ایسوسی ایشن کے ایک پروگرام میں شیواکمار نے کہا، "جب موقع ملے تو کرسی پر بیٹھ جانا چاہیے، اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔" ان کے اس تبصرے کو وزیر اعلیٰ سدارامیا کے ساتھ چل رہی مبینہ اقتدار شراکت داری کی کھینچ تان سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔
کیا ہے پورا معاملہ؟
11 جولائی کو منعقدہ کیمپے گوڑا جینتی کے موقع پر بات کرتے ہوئے ڈی کے شیواکمار نے وکلاء سے ہنستے ہوئے کہا، یہاں کئی وکیل خالی کرسیوں کے باوجود نہیں بیٹھ رہے ہیں، جبکہ ہم سب ایک ’کرسی‘ کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ کرسی پانا آسان نہیں ہے۔ جب موقع ملے، تو اس پر بیٹھ جانا چاہیے اور اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔
اگرچہ انہوں نے یہ بات مزاح میں کہی، لیکن سیاسی حلقوں میں اسے سنجیدہ اشارہ مانا جا رہا ہے۔ اس بیان نے ایک بار پھر سدارامیا اور شیواکمار کے درمیان وزیر اعلیٰ کے عہدے کو لے کر ممکنہ ’ڈھائی ڈھائی سال‘ کے فارمولے کو بحث میں لا کھڑا کیا ہے۔
کیا واقعی ہوا تھا کوئی سمجھوتہ؟
مئی 2023 میں کرناٹک میں جب کانگریس کی حکومت بنی تھی، تبھی سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ کانگریس ہائی کمانڈ نے دونوں رہنماؤں کے درمیان اقتدار بانٹنے کا ایک غیر تحریری معاہدہ کرایا تھا — جس میں سدارامیا پہلے ڈھائی سال کے لیے وزیر اعلیٰ بنے رہیں گے اور بعد میں اقتدار ڈی کے شیواکمار کو سونپا جائے گا۔
تاہم، کانگریس پارٹی نے نہ کبھی اس معاہدے کی تصدیق کی اور نہ ہی انکار کیا۔ لیکن جمعرات (10 جولائی) کو وزیر اعلیٰ سدارامیا نے صاف الفاظ میں کہا کہ وہ اپنا دور حکومت مکمل کریں گے۔ انہوں نے کہا: وزیر اعلیٰ کے عہدے کا فیصلہ کانگریس اعلیٰ کمان نے کر لیا ہے اور مجھے مکمل حمایت مل رہی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا، تو میں اب تک اس عہدے پر نہیں ہوتا۔
شیواکمار کی باتوں کا کیا ہے سیاسی معنی؟
سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ڈی کے شیواکمار کا یہ ’کرسی‘ والا تبصرہ محض ایک مذاق نہیں ہے، بلکہ یہ اقتدار کے تئیں ان کی منشا اور عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔ شیواکمار لمبے عرصے سے وزیر اعلیٰ بننے کی تمنا ظاہر کرتے رہے ہیں اور اب جبکہ حکومت کا تقریباً نصف دورانیہ مکمل ہو چکا ہے، وہ اپنا دعویٰ مضبوط کرنے میں جٹے ہیں۔
کرناٹک میں کانگریس کی حکومت بننے کے بعد پارٹی کو امید تھی کہ ریاست میں مستحکم اور مضبوط قیادت ملے گی، لیکن مسلسل سامنے آ رہے ان تنازعات نے یہ اشارہ دیا ہے کہ اندر ہی اندر سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اگر سدارامیا اور شیواکمار کے درمیان یہ تصادم اور گہرا ہوتا ہے، تو اس کا اثر 2026 کے لوک سبھا انتخابات پر بھی پڑ سکتا ہے۔