سابق چیف جسٹس سنجے کھنہ نے بیان دیا تھا کہ عام طور پر اس مرحلے پر کسی قانون پر روک نہیں لگائی جاتی جب تک کہ کوئی غیر معمولی صورتحال نہ ہو۔ "وقف بائے یوزر" کے خاتمے کو ایسی ہی ایک غیر معمولی صورتحال سمجھا جا رہا ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
وقف بل: سپریم کورٹ آج وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی صداقت پر سماعت دوبارہ شروع کرے گی۔ اس کیس کی سماعت نئے چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) بی آر گوائی اور جسٹس آسٹن جارج مسیح پر مشتمل بینچ کرے گا۔
وقف ایکٹ 2025 کے گرد موجود تنازعہ کیوں؟
وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025، "وقف بائے یوزر" کے تصور کو ختم کرتا ہے۔ یہ ان جائیدادوں سے مراد ہے جو طویل عرصے سے، باقاعدہ رجسٹریشن کے بغیر بھی، مسلم مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔
اس تصور کو ختم کرنے سے متعدد وقف جائیدادوں کی صداقت پر سوال اٹھ سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے ایکٹ کو چیلنج کرنے والی درخواستیں دائر کی گئی ہیں جو بالآخر سپریم کورٹ پہنچ گئی ہیں۔
سابق سی جے آئی سنجے کھنہ کا اہم مشاہدہ
سابق چیف جسٹس سنجے کھنہ کی سربراہی میں بینچ نے 17 اپریل کو اس کیس کی سماعت کی۔ انہوں نے مشاہدہ کیا، "عام طور پر، ہم اس مرحلے پر قانون سازی پر روک نہیں لگاتے جب تک کہ کوئی غیر معمولی حالات نہ ہوں۔ یہ کیس ایک استثناء لگتا ہے۔ "وقف بائے یوزر" کی ڈی نوٹیفکیشن کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔"
جسٹس پی وی سنجے کمار اور کے وی وشواناتھن بھی اس بینچ کا حصہ تھے۔
نئے سی جے آئی گوائی کی قیادت میں سماعت
اب اس کیس کی سماعت سی جے آئی بی آر گوائی کریں گے۔ یہ ان کا پہلا بڑا آئینی کیس ہے۔ جسٹس گوائی کو مختلف آئینی، جرائم، سول اور ماحولیاتی قوانین میں وسیع عدالتی تجربہ اور مہارت حاصل ہے۔
جسٹس بی آر گوائی کون ہیں؟
پیدائش: 24 نومبر 1960، امراوتی، مہاراشٹر
قانونی عمل کا آغاز: 1985
بمبئی ہائی کورٹ میں آزادانہ مشق: 1987-1990
بمبئی ہائی کورٹ میں اسٹینڈنگ کونسل اور پبلک پراسیکیوٹر
بمبئی ہائی کورٹ کے اضافی جج: 2003
سپریم کورٹ کے جج: 2019
آئینی بینچوں میں متعدد اہم فیصلوں کا حصہ
گزشتہ چھ سالوں میں، انہوں نے تقریباً 700 بینچوں میں کام کیا ہے اور 300 سے زائد فیصلے لکھے ہیں، جن میں شہری حقوق اور قانون کی حکمرانی سے متعلق اہم فیصلے شامل ہیں۔
وقف کیس میں آگے کیا ہو سکتا ہے؟
سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی کہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے "وقف بائے یوزر" کے ضابطے پر روک لگائی جائے یا نہیں۔ اس کے علاوہ، وقف بورڈز میں غیر مسلم نمائندگی کی صداقت اور کلیکٹر کو دی گئی اختیارات کو بھی چیلنج کیا جا رہا ہے۔
اگر عدالت اس ایکٹ کے احکامات پر روک لگاتی ہے تو اس کا ملک بھر میں وقف جائیدادوں پر نمایاں اثر پڑے گا۔ دوسری جانب، اگر روک نہیں لگائی جاتی ہے تو بہت سی طویل مدتی وقف دعووں کی حیثیت تبدیل ہو سکتی ہے۔
متعدد ریاستوں میں وقف جائیدادوں کے بارے میں تنازعات جاری ہیں۔ اس ایکٹ سے متعلق فیصلہ عام شہریوں، اداروں اور انتظامی عمل پر براہ راست اثر انداز ہوگا۔ لہذا، آج کی سماعت کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔
```