مہاراشٹرا کے تھانے میں 17,160 مربع فٹ زمین پر بنی درگاہ کو لے کر سپریم کورٹ میں تنازعہ پہنچا۔ ایک پرائیویٹ کمپنی نے غیر قانونی قبضے کا الزام لگایا۔ کورٹ نے سات دن کی یقینی صورتحال کا حکم دیا۔
مہاراشٹرا: مہاراشٹرا کے تھانے ضلع میں واقع ایک درگاہ کو لے کر سپریم کورٹ میں ایک سنگین معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہ تنازعہ گزشتہ 23 سالوں سے پردیشی بابا ٹرسٹ اور ایک نجی کمپنی کے درمیان چل رہا ہے۔ ٹرسٹ کی جانب سے قائم کردہ درگاہ ابتدا میں 160 مربع فٹ کے رقبے میں بنی تھی، لیکن آہستہ آہستہ اس کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے یہ 17,160 مربع فٹ زمین پر پھیل گئی۔ اس زمین پر ملکیت کا دعویٰ ایک پرائیویٹ کمپنی کا ہے، جس نے کورٹ میں کہا کہ درگاہ کا بڑا حصہ ان کی جائیداد پر غیر قانونی طور پر بنایا گیا ہے۔
بامبے ہائی کورٹ نے عمارت گرانے کا حکم دیا
بامبے ہائی کورٹ میں دائر ریٹ عرضی پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے یہ ہدایت دی کہ درگاہ کے غیر مجاز حصے کو گرایا جائے۔ ہائی کورٹ نے اس غیر قانونی تعمیر کو لے کر نہ صرف پردیشی بابا ٹرسٹ کو فٹکار لگائی، بلکہ تھانے میونسپل کارپوریشن کو بھی فٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ اس نے کورٹ میں دائر شدہ قسم نامے میں پورے حقائق کو واضح طور پر پیش نہیں کیا۔
ٹرسٹ نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا
ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج کرتے ہوئے ٹرسٹ سپریم کورٹ پہنچا۔ ٹرسٹ کی جانب سے سینئر ایڈووکیٹ حفیظہ احمدی نے دلیل دی کہ اپریل 2025 میں اس معاملے کو لے کر دائر شدہ سول مقدمہ پہلے ہی خارج ہو چکا ہے، جسے ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں نظر انداز کیا۔ ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ اصل تنازعہ صرف 3,600 مربع فٹ تعمیر کو لے کر تھا، لیکن ہائی کورٹ نے پورے 17,160 مربع فٹ کے ڈھانچے کو گرانے کا حکم دے دیا، جو منصفانہ نہیں ہے۔
کمپنی کا الزام: مذہب کی آڑ میں تجاوز
دوسری جانب، پرائیویٹ کمپنی کی جانب سے پیش سینئر ایڈووکیٹ مادھو دیوان نے سپریم کورٹ میں زور دے کر کہا کہ ٹرسٹ نے مذہب کا سہارا لے کر زمین پر قبضہ کیا ہے۔ انہوں نے تھانے میونسپل کارپوریشن کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ یہ تعمیر نہ صرف غیر قانونی ہے، بلکہ کورٹ کے سابقہ احکامات کی بھی خلاف ورزی ہے۔ کمپنی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ٹرسٹ نے پہلے منہدم شدہ ڈھانچے کے کچھ حصوں کو دوبارہ بنا کر قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
سپریم کورٹ کی سخت ریمارکس
سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ، جس میں جسٹس سن دیپ مہتا اور جسٹس بی ورالے شامل تھے، نے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں کئی ضابطہ سازی کی خلاف ورزیاں ہیں اور حقائق مکمل طور پر واضح نہیں ہیں۔ کورٹ نے خاص طور پر یہ سوال اٹھایا کہ 10 مارچ 2025 کو جو تخریب کا حکم جاری ہوا تھا، کیا اس کی مکمل طور پر تعمیل ہوئی بھی ہے یا نہیں۔
ہائی کورٹ میں حقائق نہ بتانے پر ناراضگی کا اظہار
سپریم کورٹ نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ ٹرسٹ نے ہائی کورٹ کو یہ معلومات نہیں دیں کہ اپریل 2025 میں ہی متعلقہ سول کیس خارج ہو گیا تھا۔ جسٹس مہتا نے کہا کہ اگر ہائی کورٹ کو یہ معلومات پہلے سے ہوتیں، تو ممکن ہے کہ وہ کسی مختلف نتیجے پر پہنچتا۔