بہوجن سماج پارٹی (بسپا) کے اندر بڑا سیاسی الٹ پھیر سیاسی راہداریوں میں ہلچل مچا دیا ہے۔ پارٹی سپریمومایاوتی نے اپنے جانشین متعین کیے گئے آکاش آنند کو پارٹی سے باہر کا راستہ دکھا دیا ہے۔ اس فیصلے سے سیاسی تجزیہ کاروں سمیت پارٹی کارکنوں میں بھی حیرت کا ماحول ہے۔ اس دوران آکاش آنند کا ایک خطاب سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے، جسے اس پورے واقعے کی اہم وجہ مانا جا رہا ہے۔
وائرل خطاب میں کیا بولے آکاش آنند؟
وائرل ہو رہے اس خطاب میں آکاش آنند نے پارٹی کے موجودہ ڈھانچے اور اس میں موجود کچھ سینئر عہدیداران پر نشانہ سایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کے اندر ایسے کچھ لوگ موجود ہیں جو فیصلے لینے میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں اور تنظیم کو آگے بڑھنے نہیں دے رہے۔ ان کے الفاظ میں، “میں نے محسوس کیا ہے کہ ہمارے کچھ عہدیدار پارٹی کو فائدہ پہنچانے سے زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یہ لوگ ہمیں کام نہیں کرنے دیتے، کچھ غلط جگہ بیٹھے ہیں، لیکن ہم انہیں ہلا نہیں سکتے۔"
انہوں نے پارٹی کارکنوں کی مشکلات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ پارٹی کے کارکن موجودہ ساخت سے ناخوش ہیں۔ ان کے مطابق، "پارٹی میں کارکنوں کو کھل کر اپنی بات کہنے کا موقع نہیں ملتا۔ ہمیں اسے دوبارہ سے بنانا ہوگا اور بہن جی (مایاوتی) کی رہنمائی میں ایسی تکنیک لانی ہوگی جس سے کارکنوں کی براہ راست بات ان تک پہنچ سکے۔"
مایاوتی کو کیوں کھٹکا آکاش آنند کا بیان؟
آکاش آنند کا یہ بیان پارٹی کی اندرونی سیاست کو اجاگر کرنے والا ثابت ہوا۔ انہوں نے بالواسطہ طور پر بسپا کے اعلیٰ قیادت اور انتظامی طرز عمل پر سوال اٹھائے، جو مایاوتی کو ناگوار گزرا۔ مایاوتی کی سیاست میں نظم و ضبط اور کنٹرول کی واضح جھلک ملتی ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کسی بھی تاخیر کے بغیر آکاش آنند کو باہر کا راستہ دکھا دیا۔
سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ آکاش آنند کے خطاب نے پارٹی میں اندرونی گروہ بندی کو کھل کر اجاگر کر دیا، جس سے بسپا کی شبیہہ پر اثر پڑ سکتا تھا۔ مایاوتی نے ہمیشہ پارٹی پر اپنی مضبوط گرفت قائم رکھی ہے اور کسی بھی قسم کی عدم اتفاقی یا بغاوت کو برداشت نہیں کیا ہے۔