ایک دن میاں شیخ چلی صبح سویرے بازار پہنچ گئے۔ بازار سے انہوں نے ڈھیر سارے انڈے خریدے اور انہیں ایک ٹوکری میں جمع کر لیا۔ پھر ٹوکری کو اپنے سر پر رکھ کر اپنے گھر کی طرف چل دیے۔ پیدل چلتے چلتے انہوں نے خیالی پلاؤ بنانے شروع کر دیے۔ شیخ چلی سوچنے لگے کہ جب ان انڈوں سے چوزے نکلیں گے، تو وہ ان کا بہت خیال رکھیں گے۔ پھر جب کچھ عرصے بعد یہ چوزے مرغیاں بن جائیں گی، تو وہ انڈے دینا شروع کر دیں گی۔ میں ان انڈوں کو بازار میں اچھے دام پر بیچ کر خوب سارے پیسے کماؤں گا اور جلد ہی امیر بن جاؤں گا۔ ڈھیر سارے پیسے آتے ہی میں ایک نوکر رکھوں گا، جو میرے سارے کام کرے گا۔ اس کے بعد اپنے لیے بہت بڑا گھر بھی بنواؤں گا۔ اس عالیشان گھر میں ہر طرح کی سہولتیں ہوں گی۔
اس عالیشان گھر میں ایک کمرہ صرف کھانا کھانے کے لیے ہوگا، ایک کمرہ آرام کرنے کے لیے ہوگا اور ایک کمرہ بیٹھنے کے لیے ہوگا۔ جب میرے پاس ہر طرح کی سہولت ہو جائے گی، تو میں بہت ہی خوبصورت لڑکی سے شادی کر لوں گا۔ میں اپنی بیوی کے لیے بھی الگ سے ایک نوکر رکھوں گا۔ اپنی بیوی کو وقتاً فوقتاً مہنگے کپڑے اور زیورات لا کر دوں گا۔ شادی کے بعد میرے پانچ چھ بچے بھی ہوں گے، جنہیں میں بہت پیار کروں گا اور جب وہ بڑے ہو جائیں گے، تو ان کی اچھے گھر میں شادی کروا دوں گا۔ پھر ان کے بھی بچے ہوں گے، جن کے ساتھ میں دن بھر بس کھیلتا ہی رہوں گا۔ انہی سب خیالوں میں گم شیخ چلی مست ہو کر چلے جا رہے تھے، کہ تبھی ان کا پاؤں راستے میں پڑے ایک بڑے سے پتھر سے ٹکرایا اور انڈوں سے بھری ٹوکری کے ساتھ دھڑام نیچے آ گرا۔ نیچے گرتے ہی سارے انڈے ٹوٹ گئے اور اسی کے ساتھ شیخ چلی کا خواب بھی ٹوٹ کر بکھر گیا۔
اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ – صرف منصوبہ بنانے یا خواب دیکھنے سے کچھ نہیں ہوتا، بلکہ محنت کرنا بھی ضروری ہے۔ ساتھ ہی پورا فوکس موجودہ وقت پر ہونا چاہیے، ورنہ شیخ چلی کی طرح صرف خیالی پلاؤ بنانے سے ہمیشہ نقصان ہی ہوگا۔