Pune

شیخ چلی کی کہانی: چل گئی، چل گئی

شیخ چلی کی کہانی: چل گئی، چل گئی
آخری تازہ کاری: 31-12-2024

چل گئی - شیخ چلی کی کہانی

شیخ چلی کی یہ کہانی اس کی ناسمجھ اور من موجی طبیعت پر مبنی ہے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ شیخ چلی بازار کے بیچ میں زور زور سے 'چل گئی، چل گئی' کہتا ہوا بھاگنے لگا۔ ان دنوں شہر میں دو فرقوں کے درمیان کشیدگی کی صورتحال تھی۔ جب لوگوں نے شیخ کو دوڑتے اور 'چل گئی، چل گئی' کہتے سنا تو انہیں لگا کہ دونوں فرقوں کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی ہے۔ لڑائی کے ڈر سے سب دکانداروں نے اپنی دکانیں بند کردیں اور اپنے اپنے گھروں کو جانے لگے۔ پورے بازار میں سناٹا چھا گیا۔ صرف شیخ ہی اِدھر اُدھر 'چل گئی' کہتا ہوا دوڑ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک دو لوگوں نے شیخ کو روک کر پوچھا کہ بھائی! یہ تو بتا کہ کہاں چل رہی ہے لڑائی، کیا ہوا ہے؟

شیخ کو ان کی بات بالکل سمجھ نہیں آئی۔ وہ حیران ہوکر ان کی طرف دیکھتا ہوا کہنے لگا کہ تم لوگ کیا پوچھ رہے ہو؟ کون سی لڑائی؟ میں کسی لڑائی کے بارے میں نہیں جانتا۔ ان لوگوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تو ہی تو اتنی دیر سے 'چل گئی، چل گئی' کہہ رہا ہے۔ ہم بس یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کس علاقے میں لڑائی چل رہی ہے۔ شیخ کو ابھی بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے کسی لڑائی کے بارے میں خبر نہیں ہے اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ تم لوگ کیا بات کر رہے ہو۔ اتنا کہہ کر پھر شیخ چلی 'چل گئی، چل گئی' کہتا ہوا آگے بھاگنے لگا۔ تب ان میں سے ایک شخص نے اسے پکڑ کر پوچھا کہ بس تو یہ بتا کہ 'چل گئی، چل گئی' کیوں چیخ رہا ہے؟

ہنستے ہنستے چلی نے کہا کہ آج بہت عرصے بعد میرا ایک کھوٹا سکہ چلا ہے۔ میں کتنے وقت سے اسے اپنی جیب میں رکھ کر گھوم رہا تھا، لیکن کوئی دکاندار اسے لیتا ہی نہیں تھا۔ آج ایک دکان میں وہ دُوانی چل گئی۔ بس اسی خوشی میں بھاگتا ہوا میں پورے علاقے میں 'چل گئی، چل گئی' کہہ رہا ہوں۔ شیخ کی بات سن کر سب لوگوں کو بہت غصہ آیا۔ ان کے دل میں ہوا کہ اس آدمی کی باتوں کی وجہ سے سب لوگ خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں۔ ایسا سوچ کر سب لوگ وہاں سے چلے گئے اور شیخ بھی ہنستا ہوا آگے بڑھنے لگا۔ وہاں سے تھوڑی دور ایک درخت کے نیچے کچھ دیہاتی ضرورت پڑنے پر لوگوں کو حادثات سے بچانے کے طریقے سوچ رہے تھے۔ ان میں سے ایک حکیم تھا۔ باتوں باتوں میں ہی اس حکیم نے سب سے پوچھا کہ اگر تمہارے آس پاس کوئی پانی میں ڈوبا ہوا شخص ہو، جس کا پیٹ پانی سے بھرا ہوا ہو اور سانس گھٹ رہا ہو، تو تم سب کیا کرو گے؟

دور سے شیخ چلی نے بھی یہ بات سن لی تھی۔ یہ سب سن کر وہ ان لوگوں کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔ وہاں حکیم نے پھر سے سب سے یہ سوال پوچھا، لیکن کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ حکیم کے آس پاس بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں نے شیخ چلی سے پوچھا کہ ارے، تو بتا کیا کرے گا۔ شیخ نے فوراً جواب دیتے ہوئے کہا کہ کسی کا سانس گھٹ رہا ہے، تو میں پہلے ایک کفن خریدوں گا اور قبر کھودنے کے لیے لوگوں کو لے کر آؤں گا۔ اتنا کہہ کر شیخ ہنستا ہوا اپنے راستے پر آگے بڑھ گیا۔ شیخ چلی کا جواب سن کر وہاں موجود لوگ دنگ رہ گئے۔ ان کے دل میں ہوا کہ یہ کسی بات کی گہرائی کو سمجھے بغیر ہی چیزیں بول دیتا ہے۔ اس سے کچھ پوچھنا ہی غلط ہے۔

اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ - سوچے سمجھے بغیر خوشی میں چیختے پھرنا نہیں چاہیے۔ ساتھ ہی دوسروں کی باتوں کو سن کر اپنے کام کو بھی متاثر نہیں کرنا چاہیے۔ ہر بات کی وجہ جان کر ہی کوئی قدم اٹھانا سمجھداری ہے۔

Leave a comment