Pune

شیخ چلی کی کھچڑی کی کہانی

شیخ چلی کی کھچڑی کی کہانی
آخری تازہ کاری: 31-12-2024

شیخ چلی کی کھچڑی کی کہانی

شیخ چلی ایک بار اپنی ساس سے ملنے سسرال گیا۔ داماد کے آنے کی خبر ملتے ہی ساس نے شیخ کے لیے کھچڑی بنانا شروع کر دی۔ شیخ بھی تھوڑی دیر بعد سسرال پہنچ گیا۔ وہاں پہنچتے ہی ساس سے ملنے کے لیے شیخ سیدھا باورچی خانے میں گیا۔ ساس سے باتیں کرتے کرتے اچانک شیخ چلی کا ہاتھ اوپر لگا اور گھی سے بھرا ایک ڈبہ سیدھا کھچڑی پر جا گرا۔ ساس کو بہت غصہ آیا، لیکن داماد پر وہ غصہ نہیں کر سکیں۔ غصے کو دبا کر شیخ چلی کو اس کی ساس نے پیار سے کھچڑی کھلائی۔ اسے کھاتے ہی شیخ کھچڑی کے دیوانے ہو گئے، کیونکہ پورا ایک ڈبہ گھی پڑنے کی وجہ سے کھچڑی زیادہ مزیدار ہو گئی تھی۔ شیخ نے ساس سے کہا کہ اس کا ذائقہ مجھے بہت پسند آیا ہے۔ آپ مجھے اس کا نام بتا دیں، تاکہ میں بھی گھر جا کر اسے بنا کر کھا سکوں۔

شیخ چلی کو اس کی ساس نے بتایا کہ اسے کھچڑی کہتے ہیں۔ شیخ نے کبھی کھچڑی لفظ نہیں سنا تھا۔ وہ سسرال سے اپنے گھر جاتے جاتے اس لفظ کو بار بار بولنے لگا، تاکہ نام بھول نہ جائے۔ کھچڑی-کھچڑی-کھچڑی کہتا شیخ چلی اپنے سسرال سے تھوڑا آگے ہی بڑھا تھا کہ وہ کسی جگہ پر تھوڑی دیر کے لیے رُک گیا۔ اس دوران شیخ کھچڑی کا نام رٹنا بھول گیا۔ جیسے ہی اسے یاد آیا، تو وہ کھچڑی کو ‘خاچڑی-خاچڑی’ کہنے لگا۔ اس لفظ کو رٹتا شیخ چلی راستے پر آگے بڑھا۔ تھوڑی دور ایک کسان اپنے فصل کو چڑیوں سے بچانے کے لیے ‘اُڑ چڑی-اُڑ چڑی’ کہہ رہا تھا۔ تبھی پاس سے ہو کر شیخ چلی ‘خاچڑی-خاچڑی’ کہتا ہوا گزرنے لگا۔ یہ سن کر کسان کو غصہ آ گیا۔

اس نے دوڑ کر شیخ چلی کو پکڑا اور کہا کہ میں یہاں چڑیوں سے فصل بچا رہا ہوں۔ انہیں اُڑانے کی کوشش میں لگا ہوں، لیکن تُو میرے فصل کو ‘خاچڑی-خاچڑی’ کہہ رہا ہے۔ تجھے اُڑ چڑی کہنا چاہیے۔ اب تو صرف اُڑ چڑی ہی کہے گا۔ اب شیخ چلی آگے چلتے کسان کی بات سن کر ‘اُڑ چڑی-اُڑ چڑی’ ہی کہنے لگا۔ وہ لفظ کو رٹتا وہ ایک تالاب کے پاس پہنچا۔ وہاں ایک آدمی دیر سے مچھلی پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے شیخ چلی کو اُڑ چڑی-اُڑ چڑی رٹتے سنا۔ اس نے شیخ چلی کو پکڑ کر سیدھا کہا کہ تُو اُڑ چڑی نہیں کہہ سکتا۔ تیری باتوں سے تو تالاب کی ساری مچھلیاں بھاگ جائیں گی۔ اب تو صرف ‘آؤ پھنس جاؤ’ ہی بولے گا۔

شیخ چلی کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی۔ آگے بڑھتے شیخ ‘آؤ پھنس جاؤ’ ہی رٹنے لگا۔ تھوڑی دیر آگے بڑھنے پر اس کے سامنے سے چور گزرے۔ انہوں نے شیخ کے منہ سے ‘آؤ پھنس جاؤ’ سن کر اسے پکڑ کر مارنا شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم چوری کرنے کے لیے جا رہے ہیں اور تُو کہہ رہا ہے ‘آؤ پھنس جاؤ’۔ ہم پھنس گئے، تو کیا ہو گا؟ اب سے تو صرف یہی کہے گا ‘آؤ چھوڑ جاؤ’۔ مار کھانے کے بعد شیخ چلی ‘آؤ چھوڑ جاؤ’ کہتا آگے بڑھنے لگا۔ اس وقت راستے میں شمشان گھاٹ آیا۔ وہاں لوگ مردہ انسان کو لے کر آئے تھے۔ ‘آؤ چھوڑ جاؤ’ سن کر ان سب کو برا لگا۔ انہوں نے کہا، “ارے! بھائی تو یہ کیا بول رہا ہے۔ جیسا تُو بول رہا ہے ویسا ہو گیا، تو کوئی زندہ نہیں بچے گا۔ تُو آگے سے صرف یہ بولے گا کہ ‘ایسا کسی کے ساتھ نہ ہو’۔”

شیخ چلی وہی کہتا آگے کی طرف بڑھنے لگا۔ تبھی راستے میں ایک راج کمار کی بارات نکل رہی تھی۔ بارات میں خوشی خوشی ناچتے جا رہے لوگوں نے شیخ کے منہ سے ‘ایسا کسی کے ساتھ نہ ہو’ سنا۔ سب کو بہت برا لگا۔ انہوں نے شیخ کو پکڑ کر کہا کہ تُو ایسے مبارک موقع پر اتنا بُرا کیوں بول رہا ہے۔ اب سے تُو صرف یہی کہے گا ‘ایسا سب کے ساتھ ہو’۔ چلی اب یہی کہتے کہتے اپنے گھر تھک ہار کر پہنچ گیا۔ وہ گھر تو پہنچ گیا تھا، لیکن اسے کھچڑی کا نام یاد نہیں رہا تھا۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ آج تیری ماں نے مجھے بہت مزیدار چیز کھلائی۔ اب تو بھی مجھے وہی بنا کر کھلا دے۔ یہ سنتے ہی بیوی نے اس ڈش کا نام پوچھا۔ شیخ چلی نے دماغ پر زور دیا، لیکن اسے کھچڑی لفظ یاد نہیں آیا۔ اس کے دماغ میں آخر میں رٹنے والے الفاظ ہی تھے۔

تب اس نے غصے میں بیوی سے کہا کہ مجھے کچھ خبر نہیں، بس تُو مجھے وہ چیز بنا کر کھلائے گی۔ بیوی غصہ کرتی باہر نکل گئی۔ اس نے کہا کہ جب مجھے معلوم ہی نہیں کہ کیا بنانا ہے، تو میں کیسے بناؤں گی۔ اس کے پیچھے پیچھے شیخ چلی بھی چلنے لگا۔ وہ راستے میں آہستہ آہستہ اپنی بیوی سے کہتا، چلو گھر چلیں اور تُو مجھے وہ ڈش بنا کر کھلا دے۔ بیوی زیادہ غصے ہو گئی۔ پاس ہی ایک خاتون دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ شیخ کو دھیمی آواز میں بیوی سے بات کرتے دیکھ کر اس خاتون نے شیخ سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے، تم دونوں یہاں راستے پر کھڑے ہو کر کیا کھچڑی پکا رہے ہو۔ جیسے ہی شیخ چلی نے کھچڑی لفظ سنا اسے یاد آ گیا کہ ساس نے بھی ڈش کا یہی نام بتایا تھا۔ اس نے فوراً اپنی بیوی کو بتایا کہ اس ڈش کا نام کھچڑی ہے۔ ڈش کا نام معلوم ہوتے ہی شیخ کی بیوی کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور دونوں خوشی خوشی گھر واپس لوٹے۔

اس کہانی سے یہ سیکھ ملتی ہے کہ – کسی کی کہی ہوئی بات یا نئے لفظ کو بھولنے کا ڈر ہو، تو اسے لکھ کر رکھ لینا چاہیے۔ صرف اسے رٹتے رہنے سے لفظ غلط اور معنی کا انرتھ ہو جاتا ہے۔

Leave a comment