کانگریس لیڈر پریانکا گاندھی واڈرا کے شوہر رابرٹ واڈرا ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ED) نے انہیں ایک بار پھر طلب کرکے ہریانہ کے شیکوہ پور لینڈ ڈیل معاملے میں پوچھ گچھ کی ہے۔ یہ معاملہ صرف مالیاتی لین دین کا نہیں بلکہ بھارتی بیوروکریسی اور عدالتی نظام کے کئی اہم کرداروں سے بھی جڑا ہوا ہے۔
نئی دہلی: انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ED) نے منگل کو کانگریس جنرل سکریٹری پریانکا گاندھی کے شوہر اور وائیناد سے رکن پارلیمنٹ رابرٹ واڈرا سے پوچھ گچھ کی۔ یہ پوچھ گچھ 2008 میں ان کی کمپنی اسکائی لائٹ ہاسپیٹیلٹی کی جانب سے کی گئی ایک متنازعہ لینڈ ڈیل سے متعلق تھی جس کی کل رقم 7.5 کروڑ روپے بتائی جا رہی ہے۔ اس زمین کے سودے کو لے کر پہلے سے ہی کئی سوالات کھڑے ہوتے رہے ہیں۔ یہ ڈیل ہریانہ کے گڑگاؤں علاقے میں کی گئی تھی اور الزام ہے کہ اس میں لینڈ یوز میں تبدیلی (Change of Land Use - CLU) سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔
اس پورے معاملے میں ہریانہ کے وقت کے وزیر اعلی بھوپندر سنگھ ہودا، آئی اے ایس افسر اشوک کھیمکا، جنہوں نے اس ڈیل کو منسوخ کرنے کی سفارش کی تھی، اور جسٹس ایس این ڈھنگرا کا نام بھی کئی بار زیر بحث رہا ہے۔
کیا ہے شیکوہ پور زمین کا سودا؟
سال 2008 میں رابرٹ واڈرا کی کمپنی اسکائی لائٹ ہاسپیٹیلٹی پرائیویٹ لمیٹڈ نے اومکاریشور پراپرٹیز سے ہریانہ کے شیکوہ پور میں 3.5 ایکڑ زمین 7.5 کروڑ روپے میں خریدی تھی۔ صرف چند مہینوں میں یہ زمین ایک بڑے ریئل اسٹیٹ برانڈ ڈی ایل ایف کو تقریباً 58 کروڑ روپے میں بیچ دی گئی جس سے کمپنی کو تقریباً 50 کروڑ روپے کا منافع ہوا۔ اس ڈیل کو لے کر سوالات اٹھے کہ اتنی تیزی سے زمین کا کمرشل لائسنس کیسے ملا اور یہ سودا صرف چار مہینوں میں اتنا منافع کیسے دے گیا۔
جب اشوک کھیمکا نے سوالات اٹھائے
آئی اے ایس اشوک کھیمکا جو اس وقت ہریانہ میں لینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے، نے اس ڈیل کی میوٹیشن پروسیس کو قوانین کے خلاف قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا تھا۔ لیکن ان کے اس فیصلے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔ تاہم تبادلے سے پہلے کھیمکا نے ایک تفصیلی رپورٹ حکومت کو سونپی جس نے اس ڈیل کی شفافیت پر سوالات کھڑے کر دیے۔
بھوپندر ہودا پر اٹھے سوالات
2008 میں جب یہ ڈیل ہوئی تو ہریانہ میں کانگریس کی حکومت تھی اور بھوپندر سنگھ ہودا وزیر اعلی تھے۔ ان پر یہ الزام لگا کہ انہوں نے واڈرا کی کمپنی کو جلد کمرشل لائسنس جاری کرنے میں کردار ادا کیا۔ تاہم 2013 میں ہودا حکومت کی جانب سے بنائے گئے ایک آئی اے ایس پینل نے واڈرا اور ڈی ایل ایف دونوں کو کلیئن چٹ دے دی تھی۔
بی جے پی حکومت نے جسٹس ڈھنگرا کمیشن تشکیل دیا
2014 میں بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اس معاملے کی دوبارہ تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ جسٹس ایس این ڈھنگرا کی صدارت میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا۔ کمیشن نے ایک خفیہ رپورٹ ریاستی حکومت کو سونپی تھی جس کی معلومات عام نہیں کی گئی تھیں۔ ہودا نے کمیشن کی تشکیل کو ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا تھا۔
ED کی تازہ کارروائی پر رابرٹ واڈرا نے کہا کہ یہ کارروائی سیاسی انتقام ہے۔ انہوں نے کہا حکومت مجھ سے ڈرتی ہے کیونکہ میں عوام کی بات کرتا ہوں اور سیاست میں فعال ہونے کی تیاری میں ہوں۔ مجھ سے پہلے بھی 20 بار پوچھ گچھ ہو چکی ہے، 23،000 دستاویزات دیے ہیں پھر بھی ہر بار نئی پوچھ گچھ ہوتی ہے۔
PMLA کے تحت تحقیقات اور دیگر معاملات سے تعلق
یہ معاملہ منی لانڈرنگ ایکٹ (PMLA) کے تحت درج کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی واڈرا کے خلاف راجستھان اور دیگر جگہوں کی لینڈ ڈیلز سے جڑے دو اور معاملات میں تحقیقات جاری ہیں۔ اتنا ہی نہیں نیشنل ہیرالڈ منی لانڈرنگ کیس سے بھی واڈرا کا نام جڑے ہونے کی قیاس آرائیاں ہیں۔ جس میں گاندھی خاندان کے ارکان بھی ملزم ہیں۔