پلوٹو نظام شمسی کا سب سے بڑا بونا سیارہ ہے۔ اسے کبھی نظام شمسی کا نواں سیارہ سمجھا جاتا تھا، لیکن اب اسے کائپر بیلٹ کی سب سے بڑی فلکیاتی چیز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ پلوٹو کی دریافت 1930ء میں کلائڈ ٹامباگ نے کی تھی، لیکن 2006ء میں اسے سیارے کی درجہ بندی سے ہٹا کر بونے سیارے کا درجہ دیا گیا۔ یہ اب بھی سائنسدانوں کے لیے انتہائی دلچسپی کا حامل جسم بنا ہوا ہے، اور نیو ہورائزنز مشن (2015ء) نے اس کے بارے میں کئی اہم معلومات اکٹھی کی ہیں۔
سائز اور مدار
* پلوٹو کا سائز زمین کے چاند کا صرف ایک تہائی ہے۔
* اس کا مدار غیرمعمولی (بیضوی) ہے، جس کی وجہ سے یہ کبھی نیپچون کے مدار کے اندر، تو کبھی بہت دور چلا جاتا ہے۔
* سورج سے اس کا فاصلہ 30 سے 45 فلکیاتی اکائیوں (4.4 سے 7.4 ارب کلومیٹر) کے درمیان بدلتا رہتا ہے۔
* یہ سورج کا ایک چکر 248.09 سال میں مکمل کرتا ہے۔
پلوٹو کا رنگ اور موسمی تبدیلیاں
پلوٹو کا قطر تقریباً 2,300 کلومیٹر ہے، جو زمین کے قطر کا محض 18% ہے۔ اس کا رنگ سیاہ، نارنجی اور سفید کا امتزاج ہے۔ پلوٹو کی سطح پر مختلف قسم کی چٹانیں اور منجمد گیسوں پائی جاتی ہیں، جو اسے نظام شمسی کی سب سے رنگین بونی دنیا بناتی ہیں۔ نظام شمسی کی زیادہ تر چیزوں کی سطح پر رنگوں میں اتنی زیادہ مختلفیت نہیں دیکھی جاتی، لیکن پلوٹو کی سطح پر رنگوں کا غیر مساوی تقسیم اسے خاص بناتا ہے۔
1994ء سے 2003ء کے درمیان کیے گئے مطالعوں میں یہ دیکھا گیا کہ پلوٹو کے رنگوں میں تبدیلی آئی ہے۔ شمالی قطب تھوڑا سا روشن ہو گیا ہے، جبکہ جنوبی قطب تھوڑا سا گہرا ہو گیا ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ تبدیلی پلوٹو کی موسمی تبدیلیوں کی علامت ہو سکتی ہے۔ چونکہ پلوٹو کا مدار انتہائی بیضوی ہے، اس لیے اس کے موسم بھی انتہائی سست رفتار سے لیکن بڑے پیمانے پر بدلتے ہیں۔
پلوٹو کا ماحول اور اس کے چاند
پلوٹو کا ماحول بہت پتلا ہے اور بنیادی طور پر نائٹروجن (N₂)، میتھین (CH₄) اور کاربن مونو آکسائیڈ (CO) سے بنا ہے۔ جب پلوٹو سورج سے دور جاتا ہے، تو اس کی سطح پر سردی بڑھ جاتی ہے، جس کی وجہ سے ماحول کی کچھ گیسوں منجمد ہو کر برف میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور سطح پر گر جاتی ہیں۔ جب پلوٹو سورج کے قریب آتا ہے، تو سطح کی منجمد گیسوں دوبارہ گیس کی شکل میں تبدیل ہو کر ماحول میں واپس آ جاتی ہیں۔
پلوٹو کے پانچ معلوم چاند
* چیرون (Charon) – سب سے بڑا چاند، جس کا قطر پلوٹو کے نصف کے برابر ہے (1978ء میں دریافت کیا گیا۔)
* نککس (Nix) – 2005ء میں دریافت کیا گیا چھوٹا چاند۔
* ہائیڈرا (Hydra) – 2005ء میں دریافت کیا گیا ایک اور چھوٹا چاند۔
* اسٹکس (Styx) – پلوٹو کا چوتھا چاند۔
* کربرروس (Kerberos) – 20 جولائی 2011ء کو دریافت کیا گیا، جس کا قطر تقریباً 30 کلومیٹر ہے۔
پلوٹو سے جڑی کچھ خاص باتیں
1. مدار: پلوٹو کا مدار دیگر سیاروں کے مدارات سے عجیب تھا۔ باقی سیارے سورج کے گرد بیضوی مدارات میں گھومتے ہیں، لیکن پلوٹو کا مدار کبھی سورج کے بہت قریب اور کبھی بہت دور ہوتا ہے۔
2. مدار کا جھکاؤ: پلوٹو کا مدار باقی سیاروں کے مدارات سے مختلف تھا، کیونکہ یہ ڈھلان پر تھا۔ باقی سیاروں کے مدارات چپٹے ہوتے ہیں، لیکن پلوٹو کا مدار زاویے پر تھا۔ اس وجہ سے کبھی پلوٹو اور نیپچون کے مدارات ایک دوسرے کو نہیں کاٹتے تھے، اور اس لیے ان کی ٹکر کا خطرہ نہیں تھا۔
3. سائز: پلوٹو کا سائز بہت چھوٹا تھا۔ اس سے پہلے، سب سے چھوٹا سیارہ عطارد تھا، لیکن پلوٹو اس سے بھی آدھا چھوٹا تھا۔
ان وجوہات کی بنا پر فلکیات دانوں کو شک ہوا کہ شاید پلوٹو نیپچون کا بھاگا ہوا چاند ہو، اگرچہ یہ امکان کم تھا کیونکہ پلوٹو اور نیپچون کبھی ایک دوسرے کے پاس نہیں آتے تھے۔ پھر، 1990ء کی دہائی کے بعد سائنسدانوں کو بہت سی نیپچون سے پرے چیزیں ملیں جن کے مدارات، شکل و صورت اور ساخت پلوٹو سے ملتی جلتی تھیں۔ انہیں کائپر بیلٹ کہا گیا، اور اب سائنسدان مانتے ہیں کہ یہ علاقہ مکمل طور پر ایسی چیزوں سے بھرا ہوا ہے، جن میں سے پلوٹو صرف ایک ہے۔
2004ء-2005ء میں کائپر بیلٹ میں ہومیہ اور میک میکے جیسے بڑے آبجیکٹس پائے گئے (جو پلوٹو سے تھوڑے چھوٹے تھے)، اور 2005ء میں کائپر بیلٹ سے باہر ایرس ملا، جو پلوٹو سے بھی بڑا تھا۔ یہ تمام چیزیں سیاروں سے مختلف تھیں، لیکن پلوٹو سے بہت ملتی جلتی تھیں۔